تسکین نا ہو جس سے وہ راز بدل ڈالو
جو راز نا رکھ پائے ہمراز بدل ڈالو
تم نے بھی سنی ہو گی بڑی عام کہاوت ہے
انجام کا ہو خطرہ آغاز بدل ڈالو
پر سوز دلوں کو جو ، مسکان نا دے پائے
سر ہی نا ملے جس سے وہ ساز بدل ڈالو
مری آنکھ کُھل گئی یک بیک ، مِری بے خودی کی سحر ہوئی
کہ مآلِ عشق سے آشنا یہ فریب خوردہ نظر ہوئی
وہ حسین رُت بھی بدل گئی، وہ فضا بھی زیروزبر ہوئی
ہوئی موت مجھ سے قریب تر، مجھے آج اِس کی خبر ہوئی
ترے التفات نے کردیا تھا مجھے نصیب سے بےخبر
میں تمام کیف و سرور تھا ، مری حد میں غم کا نہ تھا گذر
Continue with Social Accounts
Facebook Googleor already have account Login Here